تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
کثافتوں میں لتھڑی سیاست، فرقوں اور گروہوں میں بَٹی قوم، ذاتی مفادات کے اسیر رَہنمائ، علم فروشی کے اڈے جابجا اور بے نشاں اجتماعی شعور۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں کہیں اسلام نظر آتا ہے نہ جمہوریت البتہ جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیتی آمریت جس سے کوئی بھی سیاسی جماعت مبرّا نہیں۔ پہلے تو جمہوری حکمران سات پردوں میں چھپا کر آمریت کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے تھے لیکن نئے پاکستان کے بانیوں نے تو یہ نقاب بھی اُلٹ دیا۔ اب وزیرِاعظم ہمہ وقت ”خاقانِ اعظم” بننے کی تگ ودَو میں۔ اپوزیشن سے ہاتھ ملانا اُنہیں پسند نہیں اور پارلیمنٹ میں آنا کسرِشان کہ اپوزیشن کی تنقید طبع نازک پہ گراںگزرتی ہے۔ گویا ”نازک مزاجِ شاہاں تابِ سخن ندارد”۔ اُس شاہی میں مزہ ہی کیا جس کی راہ میں آئین وقانون روڑے اٹکائے۔ اِسی لیے وہ آئین و قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے آئینِ پاکستان کے عین مطابق وزیرِاعظم کو خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نوٹس بھیجا کہ وہ لوئردیر میں جلسے سے خطاب نہیں کر سکتے۔اِس نوٹس کو اُنہوں نے نہ صرف ردی کی ٹوکری میں پھینکا بلکہ وزراء کی فوج بھی ساتھ لے کر جلسے سے بھرپور خطاب کیا۔ اِسی جلسے میں اُنہوں نے نیوٹرل کی جو تشریح کی وہ اب تاریخ کا حصہ۔ دراصل وہ آلو ٹماٹر کے بھاؤ طے کرنے نہیں بلکہ وہ تو ایک ”نظریہ” دینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک ہم اُن کے نظریے کو سمجھ پائے ہیں، اُس کے مطابق وزیرِاعظم غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کر سکتا ہے، خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے سکتا ہے، نشانِ عبرت بنانے کا اعلان کر سکتا ہے، جابجا یوٹرن لے سکتا ہے، اپوزیشن کو اپنی بندوق کی ”نشست” پر رکھ سکتا ہے اور اگر حقِ حکمرانی کو کوئی چیلنج درپیش ہو تو اپنی اندھی طاقت کے بَل پر خون کی ندیاں بہانے کا حکم دے سکتا ہے۔ یقین نہ آئے تو تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیرِاعظم اور حواریوں کے بیانات پڑھ لیں جن کی زبانیں شعلے اُگل رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی قائد اور اقبال کا پاکستان ہے؟۔ کیااِسی لیے ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر اور ہزاروں عصمتیں لُٹا کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا تھا؟۔
آئینِ پاکستان کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنا پارلیمنٹیرینز کا حق ہے لیکن جب سے اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں پر کسی بیرونی طاقت نے حملہ کر دیا ہو۔ تب سے دَمِ تحریرپرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہی بحث جاری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63-A کے مطابق فلورکراسنگ کی سزا مقرر ہے۔ کوئی بھی رُکنِ پارلیمنٹ اگر سیاسی جماعت کے سربراہ کے حکم کے مطابق ووٹ نہیں دیتا تو اُس کی رُکنیت ختم کی جاسکتی ہے لیکن اُسی پروسیجر کے مطابق جو آئین میں درج ہے۔ آئین یہ وضاحت کرتا ہے کہ کسی بھی صورت میں کسی بھی پارلیمنٹیرین کو ووٹ کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پارلیمنٹیرین پارٹی سربراہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ووٹ نہیں دیتا تو اُس کا ووٹ تو شمار کیا جائے گا البتہ الیکشن کمیشن، پارٹی سربراہ کی درخواست پر اُس پارلیمنٹیرین کی رُکنیت ختم کر سکتا ہے۔ یہاں مگر معاملہ یکسر مختلف، تحریکِ انصاف کے وزراء آرٹیکل 63-A کی یہ تشریح کر رہے ہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی اُس پارلیمنٹیرین کو ووٹ دینے کے حق سے ہی محروم کر سکتا ہے۔
آرٹیکل 63-A کی یہ تشریح سِرے سے غلط ہے لیکن چونکہ سپیکر قومی اسمبلی وزیرِاعظم کا غلامِ بے دام ہے اِس لیے ”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے”۔ سپیکر اسدقیصرنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے بعد اُس کی مرضی ہے کہ کتنے دنوں کے وقفے کے بعد وہ دوبارہ اجلاس طلب کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق ریکوزیشن کے بعد زیادہ سے زیادہ 14 دنوں کے اندر اجلاس طلب کیا جائے گا۔ اجلاس طلب کرنے کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی تحریکِ عدم اعتماد کا نوٹس اراکین کو بھیجیں گے اور اسمبلی کا اجلاس طلب ہونے کے اگلے دن عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوگی۔ جس دن قرارداد پیش کی جائے گی قواعد کے مطابق اُس پر 3 دن سے پہلے یا 7 دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہوگی۔ لیکن ہمارے سپیکر صاحب کے نزدیک وہی آئین اور وہی قانون جو وزیرِاعظم کا حکم ہو۔ جیونیوز کے اعزازسیّد نے کہا ”سپیکر قومی اسمبلی سے یونہی چلتے چلتے غیررسمی ملاقات ہوئی تو میرے سوال پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ اجلاس طلب کرکے اُسے جتنے چاہے لمبے عرصے تک ملتوی کر سکتے ہیں۔ اِس بات کا اُنہیں اختیار قانون نے دے رکھا ہے اور سپیکر کا یہ اختیار کوئی چیلنگ نہیں کر سکتا”۔ سپیکر صاحب کی یہ نرالی منطق ہماری سمجھ سے باہر۔ دنیا میں عدم اعتماد کی تحریکیں پیش ہوتی رہتی ہیںجن پر آئین کے مطابق عمل بھی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سپیکر آئین سے ماوراء کوئی عمل کرتا ہے تو کیا اُس پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوگا؟۔
17 مارچ کو سندھ ہاؤس اسلام آباد میں ٹھہرے تحریکِ انصاف کے منحرف 12 ارکانِ اسمبلی میڈیا کے سامنے آئے تو تحریکی حلقوں میں زلزلہ آگیااوریہاں تک کہہ دیا گیا کہ 27 مارچ کو شاہراہِ دستورپر پارلیمنٹ کے سامنے وزیرِاعظم 10 لاکھ کے اجتماع سے خطاب کریں گے۔ وزیرِاطلاعات فوادچودھری نے کہا کہ28 مارچ کوعدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت جو کوئی بھی پارلیمنٹ کے اندر ووٹ ڈالنے جائے گا وہ اِسی مجمعے سے گزر کر جائے گا اور واپسی پر بھی اِسی مجمعے سے گزرے گا۔ یہ حکومت کی طرف سے اراکینِ پارلیمنٹ کو کھُلی دھمکی ہے۔ اِس دھمکی کے رَدِعمل میں پی ڈی ایم اور نوازلیگ کی طرف سے کہا گیا کہ وہ 25 مارچ کو ہی 20 لاکھ کی ریلی کے ساتھ شاہراہِ دستور پر براجمان ہو جائیں گے۔ پی ڈی ایم کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اُس کا لانگ مارچ تو پہلے سے ہی 23 مارچ کو طے شدہ ہے۔ شاہراہِ دستور کی کل لمبائی 3.8 کلومیٹر ہے۔ اُس میں تحریکِ انصاف کے 10 لاکھ اور پی ڈی ایم کے 20 لاکھ سمائیں گے کیسے اور وہ بھی بیک وقت؟۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں طرف سے جذباتی کارکُن شاہراہِ دستور پر جمع تو ہوںگے مگر اتنے نہیں جس کے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں تصادم کو کسی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ ترین عدلیہ ایسے تصادم کو روکنے کے لیے ، حرکت میں نہیں آئیں گے؟۔
جوں جوں وزیرِاعظم کو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہوتا جا رہا ہے اُن کا غصّہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتا جا رہا ہے اورایسے حواری جنہیں نہ صرف اپنی دنیا اُجڑتی نظر آرہی ہے بلکہ یہ بھی یقین کہ اُنہیں ایسا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا، اول فول بکنے پر اُتر آئے ہیں۔ جب سے اِس خبر کی تصدیق ہوئی ہے کہ تحریکِ انصاف کے لگ بھگ 30 ارکان منحرف ہو چکے تب سے منحرف ارکان کے بارے میں زبانیں دراز ہوچکیں۔ فوادچودھری نے کہا ”تم عمران خاں کی ٹکٹ پر جیتے اِس لیے سیٹ عمران خاں کی ہے تمہارے باپ کی نہیں”۔اب منحرف اراکین کو ضمیرفروشی کے طعنے دیئے جا رہے ہیں لیکن جب یہی لوگ تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تھے تو تحریکِ انصاف کہتی تھی کہ اِن لوگوں نے ضمیر کی آواز پر لبّیک کہا ہے۔
ہر روز ”ایک وکٹ اور گِر گئی” کی کلکاریاں سنائی دیتی تھیں۔ہم نے اُس وقت بھی بار بار لکھا کہ یہ ایسے پنچھی ہیں جو ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اب اگر انہوں نے ٹھکانے بدلنے کی ٹھان لی ہے تو واہی تباہی کیوں؟۔ رُکنِ قومی اسمبلی عالیہ حمزہ اور وزیرِ اعظم کے معاون شہبازگِل نے بَدزبانی وبَدکلامی اور خباثتوں کی انتہا کرتے ہوئے نیوزچینل پر بیٹھ کر ایسی گندی گالیاں بکیںجنہیں لکھتے اور بولتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ تحریکِ انصاف کے دو ممبرانِ قومی اسمبلی وزیرِاعظم کے بزعمِ خویش ٹائیگرز کی ہمراہی میں سندھ ہاؤس اسلام آباد کا بیرونی گیٹ توڑ کر اندر گھُس گئے ۔ اُن کا دعویٰ سندھ اسمبلی میں موجود منحرف ارکانِ اسمبلی کو پکڑنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِاعظم اپنی کرسی بچانے کے لیے واقعی انارکی پھیلانا چاہتے ہیںاور کیا ایسا ہوتا دیکھ کر مقتدر قوتیں خاموش تماشائی بنی رہیں گی۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر