تحریر: روہیل اکبر
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیااور جسکے ذمہ کام انسانیت کی بھلائی کا لگایا گیا اور دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں اور ہم ہمیشہ ایسے انسانوں کو فرشتوں سے تشیع دیتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسے انسان فرشتوں سے میں بھی افضل و اعلی ہوتے ہیں جو بغیر کسی مفاد اور لالچ کے اپنے حصے کا کام کرنے میں مصروف ہیں لاشعوری طور پر یا شعوری طور پر فلاح انسانیت کی راہ پر چلنے والے افراد اللہ کی طرف سے ہم پر بہت بڑا انعام ہوتے ہیں۔
ایسے افراد پر اللہ کی رحمتیں تو ہوتی ہی ہیں ساتھ ساتھ وہی رحمتیں انکے زریعے عام انسان کا مقدر سنوارنے کا فریضہ بھی سر انجام دیتی رہتی ہیں ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں انسان پیدا کیا اور اس سے بڑھ کر یہ خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس مشن سے دوری اختیار کر لی جسکے لیے ہمیں تخلیق کیا گیا ہم دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاتے مگر اپنے گریبان میں جھانکنا گوارہ نہیں کرتے دوسروں کی خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہم انکی پیٹھ پیچھے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورسامنے آکر ہاتھ باندھے خوش آمدی بن جاتے ہیں برائی،خامی،نقص،بے راہ روی اور غلطی ہر انسان میں موجود ہوتی ہے یہ چیزیں ہمارے خمیر کا حصہ ہیں اگر ہم ان چیزوں سے پاک ہوتے تو پھر ہم انسان نہ ہوتے بلکہ ہمارا شمار کسی اور ہی مخلوق میں ہوتا اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر غلطیاں کرنے اس پر نادم اور شرمندہ ہوکر راہ راست پر آنے والا انسان بنایا دنیا میں اللہ کے نبیوں کے علاوہ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں کچھ انسان اپنی غلطیوں پر معافی مانگ کر انسانیت کی اس صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔
جہاں سے فلاح انسانیت کے درس کی ابتدا ہوتی ہے راہ راست پر آنے والے انسان پھر دنیا کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی حیوانیت کی وجہ سے انسایت کیلیے وہ ناسور بن جاتے ہیں جنہیں نشان عبرت بنانا ضروری ہوجاتا ہے اسلام نے امن،پیار،محبت اور خدمت خلق کا جو درس دیا ہے وہ بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے اگر ایسے افراد آٹے میں نمک کے برابرکے برابر بھی موجود ہوتے تو ہم دنیا کی عظیم قوم بن کر ابھرتے ہماری خصوصیات پر دوسروں نے عمل کرکے نہ صرف دنیا کو حیران وپریشان کررکھا ہے بلکہ وہ فلاح انسانیت کا بے مثال فریضہ بھی سر انجام دینے میں مصروف ہیں ہماری 22کروڑ کی آبادی میں ڈھونڈنے سے 22افراد نہیں مل سکتے جو بغیر کسی لالچ،مفاد اور طمع کے مظلوم،مجبور اور مفلوک الحال عوام کی خدمت کرنے میں مٰصروف ہوں پہلے تو نظر بچا کر ایک دوسرے کو چونا لگایا جاتا تھا اب یہ دور آچکا ہے کہ آنکھوں کے سامنے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔
زندہ انسانوں کو برہنہ کرکے ہڈیا ں توڑ دی جاتی ہیں اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ سانس لیتی انسانیت پر تیل چھڑک کر آگ لگادی جاتی ہے پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اس جلی ہوئی لاش کو ننگی سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں اور پھر درخت کے ساتھ لٹکا کر سیلفیاں اور ویڈیو بھی بناکر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی انسانیت کی خدمت کے پیدا کیاایک سے بڑھ کر ایک گھناؤنے کام کررہے ہیں ہم خود بھی اسی کھیل کا حصہ بن چکے ہیں آج دو نمبری کا تو تصور ہی ختم ہوچکا ہے فراڈ،دھوکہ،چور بازاری اور لوٹ مارمیں ہم ماسٹر ڈگری نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کر چکے ہیں آئے روز ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے اور جھنھوڑنے کے نئے نئے طریقے دریافت کررہے ہیں اتنے گھناؤنے مظالم کے بعد بھی ہم خیریت سے زندہ ہیں تو وہ چند لوگوں کی وجہ سے پرتشدد زندگی میں انسانیت کا درس دینے والے افراد انگلیوں پر گنے جاتے ہیں گذشتہ چند روز سے بہالپور میں امتحان دینے میں مصروف تھا کچھ عرصہ سے وائس چانسلراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے سلام دعا کا سلسلہ چل رہا ہے اور دوستوں کے متعلق دوسروں سے اکثر پوچھتا بھی رہتا ہوں کہ فلاح بندہ کیسا ہے۔
پیپر کے آکری دن بہاولپور کے ساتھ اپنے گاؤں 36 ڈی این بی چلا گیا باتوں ہی باتوں میں یونیورسٹی کا ذکر ہوا تو میں نے لامحالہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے بارے میں بھی پوچھ لیا کہ وی سی کیا جارہاہے وہاں پر بیٹھے ہوئے غلام رسول،بائی رشید،وہاب ارشاد،احسان،لقمان اور شاہد سمیت متعدد افراد نے بیک وقت کہا کہ انکے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ جس نے یونیورسٹی کی اندر بھی جھانک لیا وی اسے اسے پکڑ کر داخلہ دے دیتا سبحان اللہ کیا خوبصورت الفاظ تھے کاش ہماری دوسری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے عام لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیں تو ہم جہالت میں گرنے سے بچ جائیں گے تعلیم شعور دیتی،عقل دیتی ہے اور معاشرے کو سدھارنے کا جادو سکھاتی ہے آج اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اسلامیہ یونیورسٹی پاکستان کی سب سے بہترین یونیورسٹی بن چکی صرف ایک شخص کی بدولت اسی طرح تعلیم کے میدان میں خاکروب،خانساماں،ڈرائیو ر،مالی اور انپڑھ جاہلوں کا ہاتھ پکڑ کر ماسٹر ڈگری نہیں بلکہ ڈگریاں کروانے والے محسن انسانیت پرنسپل بہاولپور لاء کالج میاں ظفر اقبال بھی ایک زندہ مثال ہیں جنہوں نے خود عمر کے اس حصے میں پڑھنا شروع کیا۔
جب انسان جوانی سے ڈھلتی عمر میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے وہ ایسا پڑھے کہ کئی ماسٹر ڈگریاں کرلیں ایل ایل بی کرلیا اور بہاولپور کی تاریخ میں پہلے ایل ایل ایم بھی بن گئے اور اب وہ ہم جیسے انپڑھ اور جاہلوں کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر علم کی روشنی دکھا رہے ہیں انکے رکھے ہوئے ٹیچروں کا تو کوئی جواب ہی نہیں میں نے اپنی زندگی میں منصور خان جیسا محنتی اور پیارا انسان نہیں دیکھا بچپن سے اب تک پڑھتا آیا ہوں مگر جس انداز اور محنت سے وہ پڑھاتے ہیں شائد ہی کہیں اور مثال موجود ہو ہمیں دن 2بجے سے رات 12بجے تک بغیر کسی وقفہ اور لالچ کے پڑھاتے رہے میرے کلاس فیلو ملک وقاص،شاہد اور آصف خود منصور خان سے کہتے کہ سر کچھ دیر چھٹی نہ کرلیں بہت محنتی اور گریٹ انسان ہیں اسی طرح پلاک کی سربراہ ڈاکٹر صغراں صدف بھی کیا خوبصورت عورت ہے جو دل جان سے پنجاب اور پنجابی کی خدمت میں مصروف ہے۔
ڈاکٹر نظام الدین جو ایچ ای سی پنجاب کے پہلے چیئرمین اور سابق وائس چانسلر گجرات یونیورسٹی رہے اب وہ بھی تعلیم کے مشن کو لیکر آگے چل رہے ہیں ڈاکٹر اعجاز قریشی کا بھی کوئی ثانی نہیں یہ چند گنے چنے افراد ہیں جو پاکستان سے پیار کرنے والے محب وطن لوگ ہیں جو پاکستان کی غریب،عقل وشعور سے عاری،انپڑھ اور جاہل لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کو حقیقی فلاحی ریاست بنایا جاسکے اور اس قوم کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ترقی،خوشحالی،پیار،محبت اور بھائی چارے کے زریعے دنیا میں بلند مقام دلایا جاسکے ایسے افراد ہمارے لیے کسی نعمت اور غنیمت سے کم نہیں دنیاانہیں ڈھونڈتی اور ہم انہیں وہ مقام اور عزت نہیں دینا چاہتے جسکے وہ حق دار ہیں وزیر اعظم عمران خان،پنجاب حکومت بلخصوص وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار تعلیم کے میدان میں انقلاب لانا چاہتے ہیں انکی کوشش ہے کہ ہر بچہ تعلیم کی روشنی سے جگمگا رہا ہوں وہ پنجاب میں یونیورسٹیوں کا جال بچھارہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ایسے افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپ کر تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کردیں کیونکہ جب تک ہم تعلیم میں پیچھے ہیں تب تک ہم ہر جرائم میں سر فہرست رہیں گے کاش چند اور ایسے افراد ہمیں مل جائیں۔
تحریر: روہیل اکبر