تحریر: شمائلہ خرم
اللہ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا ہے انسان ہونے کے ناطے ہم سے بہت ساری غلطیاں اور گناہ ہوتے ہیں۔اور ہوتے رہیں گے۔کوئی کتنا ہی نیک،کوئی کتنا ہی اللہ کے قریب ہو، کوئی کتنا ہی دین اسلام کو سمجھ لے لیکن پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کہیں نہ کہیں غلطی،کوتاہی اور گناہ ہو ہی جاتا ہے کیونکہ انسان مکمل ہو ہی نہیں سکتا مکمل اور پوری ذات صرف اور صرف اللہ کی ذات ہیں۔ جب غلطی،کوتاہی یا گناہ ہو جائے اور ہمیں احساس ہو جائے فوراً توبہ کر لینی چاہیے۔
”بیشک اللہ توبہ کرنے والے کو پسندکرتا ہے”
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ توبہ کا وقت مقرر ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی توبہ کا وقت مقرر ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد باری تعالی ہے کہ”رمضان المبارک اللہ رب العزت کا مہینہ ہے اور شعبان المعظم میرا مہینہ ہے”ماہ شبعان میں اک شب پندرویں آتی ہے اس شب کو ”شب برات”کہتے ہیں۔اس شب کو پوری دنیا کی مخلوقات کے سال بھر کے اعمال لکھے جاتے ہیں۔تقدیریں لکھی جاتی ہیں۔
شب برات یعنی شب کا مطلب رات اور برات کا مطلب چھٹکارا اور نجات ہیں۔بعض اعلمااکرام لکھتے ہیں کہ”یہ گناہوں سے معافی کی رات ہیں۔ یعنی اس رات گناہوں سے معافی ملتی ہیں۔(شب برات گناہوں سے معافی کی رات)اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سال بھر اگر غلطی,،گناہ ہو جائے تو شب برات سے پہلے معافی مانگ لینی چاہیے۔تاکہ ہمیں اللہ سے معافی مل جائے۔
آج کل سوشل میڈیا کا دورہیں۔تو بس پھر ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں۔ اب معافی کے حصول کے لیے کرتے کیا ہیں۔جی ایک دوسرے کو میسج لکھتے ہیں۔لوگوںکے لئے معافی کے سٹیٹس لگائے جاتے ہیں۔فیس بک،انسٹاگرام اور اس دوسری apps پی معافی کی پوسٹیں لگائی جاتی ہیں۔کہ شب برات سے پہلے ہمیں معاف کر دیں توبہ یہ نہیں ہوتی توبہ تو وہ ہوتی ہے جو دل سے مانگی جائے۔کیا یہ معافی دل سے مانگی جاتی ہیں۔
”وہ رب سات سمندروں کا مالک انسان کے دل سے بہانے والے اک قطرے سے محبت کرتا ہے” تو کیا یہ ضروری ہے کہ معافی کے لیے ہم شب برات کا ہی انتظار کریں۔حالانکہ ہمیں ہماری زندگی کے اک پل کی خبر نہیں۔اور امید لگائے بیٹھے ہیں پورے سال کی کہ کب شب برات آے اورمعافی مانگے۔ کیا پتہ شب برات آنے سے پہلے ہماری زندگی کی مہلت ختم ہوجائے ارو معافی کا موقع ہی نہ ملے۔
”اسی لئے اللہ تعالی نے توبہ کا کوئی وقت مقررنہیں کیا”
اللہ تعائی فرماتے ہیں کہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے توبہ کرتے رہو ہو اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتے رہو ہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے ایک واقعے کی رو سے مختصر واقعہ،؟
ایک بار شیطان نے اللہ تعالی سے کہا ہے کہ اے اللہ میں اپنی پوری طاقت لگا دوں گا انسان کو نیکی کے راستے سے بہکانے میں گناہ کرنے پر اکساتا رہوں گا شیطان کی بات سن کر اللہ نے فرمایا کہ ابلیس جب جب میرا بندہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے گا میں اسے معاف کر دوں گا میں توبہ قبول کرنے والا ہوںتوبہ اللہ کا پسندیدہ عمل ہے اور توبہ کا عمل شیطان کو تکلیف دینے والا عمل ہے کیونکہ انسان کے توبہ کرنے پر شیطان کے برسوں کی محنت ضائع ہو جاتی ہیں۔کیونکہ توبہ کرنے پر اللہ انسان کے بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔اللہ تعالی نے توبہ کا وقت مقرر نہیں کیا کیونکہ شیطان نے کہا تھا کہ اے اللہ میں تیرے بندوں کو گناہوں پر اکساتا رہوں گا اور اللہ نے بھی فرمایا کہ جب جب میرا بندہ توبہ کرے گا میں توبہ قبول کروں گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! کہ اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور اس کی جناب میں توبہ کرتا ہوں بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔؛
سوچیں ذرا! جب اللہ کا نبی دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ کر رہا ہے تو ہمارے لئے توبہ کا وقت کیسے مقرر ہو سکتا ہے۔ہم انسان تو اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی دھول کے برابر بھی نہیں اللہ تعالی فرماتے ہیں ہیں! توبہ کا کوئی وقت مقرر نہیں اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے توبہ کرتے رہا کریں کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب فرشتہ اجل لینے آ جائے اور کب سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جائے۔
مت کیا کر اتنے گناہ توبہ کی آس پر اے ابن آدم
بے اعتبار سے زندگی ہے نہ جانے کب موت آ جائے
تحریر: شمائلہ خرم