تحریر: میر افسر امان
مسکان خان بھارت کے صوبہ کرناٹک کے کالج کی ایک طالبہ ہے۔ اس کالج میں کچھ مسلمان طالبات کو حجاب پہن کر کالج میں داخل ہونے سے آر ایس ایس کچھ غندہ عناصر نے روک دیا تھا۔مسکان خان ایک دن اپنے کالج میں اساینمنٹ داخل کرانے آئی۔وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق حجاب اوڑے ہوئی تھی۔ جب وہ اپنا موٹر سائیکل پارک کرنے کے بعد کالج کی طرف بڑھی تو پہلے سے موجود آر ایس ایس کے غندہ عناصر نے اسے کالج میں داخل ہونے سے روکا۔ اور کہا کہ حجاب اُتار کر کالج میں داخل ہو۔ مسکان خان نے انکار کیا تو انہوں نے مسکان خان کو ہراساں کرنے کے اس کی طرف بڑھے۔ اور جے شری رام جے شری رام کے نعرے لگانے لگے۔ وہ اپنے مذہب کا شعار پیلے رنگ کے اسکارف گلوں میں ڈالے ہوئے تھے۔مسکان خان نے ان غنڈہ عناسر کی طرف ہاتھ بلند کرتے ہوئے پراعتماد ہو کر اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔اللہ اکبر کے نعرے لگاتے کالج کے گیٹ کی طرف بڑھتی گئی اور کالج میں داخل ہو گئی۔
کالج کے اسٹاف نے مسکان خان کی مدد کی۔مسکان خان کے ایک ٹی وی انٹر ویو کے مطابق کالج کے پرنسپل نے بھی مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہن کر کالج میں آنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔مسکان خان کواچھی طرح سے معلوم تھا کہ ایسے انتہا پسند ہندو ہجوم جے شری رام۔جے شری رام کے نعرے لگا کر نہتے مسلمانوں کو بھارت میں شہید کر رہے ہیں۔ مگر مسکان خان نے بغیر کسی خوف کے ان غنڈہ عناصر کے سامنے نعرہ توحید بلند کر کے بھارت کے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ پورے بھارت اور دنیا میں مسکان خان مجاہدہ کی بہادری کے چر چے عام ہونے لگے اور اللہ تعالیٰ نے منٹوں میں مسکان خان کو مشہور معروف کر دیا۔باہر ملکوں سے مسلمان تنظیموں نے مسکان خان کو مفت تعلیم حاصل کرنے کی پیش کش کیں۔بھارت کے کئی ٹی وی اسٹیشنوں نے مسکان خان کے انٹرویو نشر گئے۔جماعت اسلامی ہند اور دارلعلوم دیو بند نے نقد انعامات کا اعلان کیا۔مسکان خان اس بہاری کی وجہ سے مسلم دنیا کے نامی گرامی شخصیت بن گئی۔موت کے خوف نہ ڈرنے والوں اورظلم کے خلاف ڈٹ جانے والوں کو اللہ ایسے ہی نوازتا ہے۔
وزیر اعظم بھارت دہشت گردمودی جو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کابنیادی رکن ہے۔ اس نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حکومتی دہشت گردی شروع کی ہوئی ہے۔ بھارت کے سیکولر آئین کی مخالف انتہا پسند مذہبی حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے اسے جرمنی کے قوم پرسٹ ہٹلر کا نام دیا ہوا ہے۔جس وقت گجرات کا وزیر اعلی تھا تو مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی تھی ۔ اپنی پولیس سے تین ہزار مسلمانوں کومولی گاجر کی طرح کاٹا تھا۔ اس دہشت گردی پر امریکا بہادر نے مودی پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگائی تھی۔اب بھارت مذہبی انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا نے کی وجہ سے الیکشن جیت کر بھارت کا وزیر اعظم بنا ہے۔ ویسا ہی سفاکیت اور ظلم بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ اب امریکا بہادر اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش ہو گیا ہے۔
مودی کے اقتدار سے پہلے بھارت میں حجاب کے متعلق کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ کانگریس کی حکومت کے دوران بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا تھا۔ مسلمانوں کو آئین میںدیے گئے حقوق کے مطابق سرکاری نوکریوں میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔مسلمان ریڑھی لگا کر بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ جب ترقی کر کے کچھ چھوٹا موٹا کارخانہ بناتے تو اس علاقے میں ہند مسلم فسادات کر ا کے مسلمانوں کی کاکارخانے ندر آتش کر دیے جاتے۔ مسلمان بھارت میں غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔بھارت میںسچل تحقیقاتی رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اب مودی مسلمانوں کی اقتصادی پوزیشن تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی عقائد پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے۔
مودی پولیس کامساجد میں مسلمانوں کو آذان دینے ، ٹوپی پہننے، قبرستانوں میں دفن ہونے سے روکنا،ہزار سال سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے رہاشی ثبوت مانگنے اور نہ جانے کون کون سے مسائل کھڑے کرکے مسلمانوں ہراساں کر کے ہندو بنانے یا بھارت چھوڑ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اس میںمودی حکومت کے سارے ادارے جس میں عدلیہ بھی شامل ہے مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ مسکان خان کو بھارت میں مختلف ٹی وی اسٹیشنوں نے انٹرویو کے لیے بلایا۔ مسکان خان نے اپنے ٹی وی انٹر ویو میں کہا کہ ہمیں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے شعار سے کوئی اعتراض نہیں۔ کالجوں میںوہ بھی اپنے مذہب کے شعار پہن کر آئیں اور ہمیں بھی اس میں آزای ہونی چاہیے۔ اس دوران کرناٹک کی حکومت نے پورے صوبے کے کالجوں میں مسلمان طالبات پر حجاب پہن کر آنے میں پابندی لگا دی۔مسکان خان نے کہا کہ ہمیںبھارت کی عدلیہ پر یقین ہے کہ ہم عدالت جائیں گے۔
بھارت کے صوبہ کی مختلف مسلمان تنظیموں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں اپیلیں کی ہوئی تھی کہ بھارت کاسیکولر آئین سب مذاہب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔بھارت کے صوبہ کرناٹک کی عدالت عالیہ کے جج بھی مسلم دشمنی کرتی ہوئی بابری مسجد کے متعصبانہ فیصلے کی طرح فیصلہ دے دیا ۔ کرناٹک ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں۔ تعلیمی اداروں کو یونیفارم تجویز کرنے کا حق ہے۔ طلبہ اعتراض نہیں کر سکتے۔ بھارت کے مسلمانوں نے فیصلہ عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند،اسداللہ اویسی، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ کی جانب سے عدالتی فیصلے کی مذمت کی گئی۔ انڈین امریکن کونسل نے بھی فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
صاحبو!بھارت کے مسلمانوں کو مودی کے مظالم سے روکنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔ عمران خان سے پہلے تو حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ معذرتانہ رویہ رکھا ہوا تھا۔عمران خان نے مودی کو ہٹلر کہا۔ مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔بھارت کے مسلمانوں کو تحریک پاکستان کی طرح یک جا ہو کر اپنے ایک سیاسی جماعت بنانا چاہیے۔ بھارت میں اس وقت بھی تیس کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان کو اپنے سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور تہذیبی حقوق کے لیے اکٹھا ہونا چاہے۔ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے وعدے اور براعظیم کے مسلمانوں کی اُمنگوں اور سوچ کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت فوراً قایم کر دینا چاہیے۔ بھارت کے مسلمانوں کی پشتی بانی کرنی چاہیے۔ مودی اور اس جیسی کسی بھی مسلم دشمن حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربھارت اور کشمیر کی مسلمانوں کی مدد کی جانی چاہیے ۔ یہ کام صرف ایک اسلامی حکومت ہی کر سکتی ہے۔
تحریر: میر افسر امان