یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) مغرب میں کئی تجزیہ کار ’سرد جنگ دوئم‘ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے اور اس پر چینی حمایت نے یہ واضح کر دیا ہے ایک مرتبہ پھر دو کیمپ نمودار ہو رہے ہیں اور اس بار چین مغرب کے مخالف کے طور پر ابھر رہا ہے۔
یوکرین میں جنگ کے آغاز سے ہی یہ بات واضح تھی کہ چین روسی حملے کی مذمت نہیں کرے گا۔ پچیس فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کی مذمت میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا، جس پر رائے دہی میں چین نے اپنا ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ووٹنگ میں چین نے شرکت نہ کی۔
گزشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ ان کے ملک کی روس کے ساتھ ‘دوستی‘ پتھر کی طرح مضبوط ہے اور یہ باہمی تعلقات عالمی امن و استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ وانگ کے مطابق ‘سرد جنگ کے دور کی سوچ‘ یوکرین میں جنگ کی وجہ بنی۔ وانگ اکثر روایتی حریف ملک امریکہ پر تنقید کرتے وقت یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
مغرب بمقابلہ مشرق
سرد جنگ سن 1947 سے 1989ء تک جاری رہی اور اس میں دو بلاک یا کیمپ نمودار ہوئے۔ مغربی طاقتیں، جن کی قیادت امریکہ کر رہا تھا، اور مشرقی بلاک، جس کی قیادت سابق سوویت یونین نے کی۔ مغربی بلاک سرمایہ داری نظام کا حامی تھا جبکہ مشرقی کیمپ کمیونزم کا۔ سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے ہوا۔
چینی موقف کے مطابق امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اب بھی ‘سرد جنگ کے دور کی سوچ‘ کے حامل ہیں اور روس کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ چین انڈو پیسیفک کے خطے میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے حوالے سے بھی نیٹو اور امریکہ کو خطرہ مانتا ہے۔
مغرب میں کچھ سیاست دان اور تجزیہ کار اب ایک نئی سرد جنگ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ‘Cold War 2.0’ کی اصطلاح واشنگٹن اور بیجنگ اور یورپی یونین اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ مارچ 2019 میں یورپی کمیشن نے باضابطہ طور پر چین کو ‘نظام کے لحاظ سے حریف‘ قرار دیا تھا۔
چین کے نقطہ نظر سے امریکہ، اس کے بین الاقوامی پارٹنر اور نیٹو کے عزائم، چین اور روس کے مفادات سے متصادم ہیں۔
ماہر سیاسیات میشل لوبینا، جو کئی سال سے روسی اور چینی تعلقات پر تحقیق کر رہے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، جس میں چین اور مغرب مد مقابل ہیں۔ اس تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے سرد جنگ کی ذہنیت کے بارے میں بات کرنا اور روسی حملے کے لیے جواز کے طور پر پیش کرنا ‘منافقانہ‘ بات ہے۔
سن 2010 کے اوائل میں، اس وقت کے چینی وزیر خارجہ یانگ جیچی نے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے کہا، ”چین ایک بڑا ملک ہے، دوسرے ممالک چھوٹے ہیں، یہ صرف ایک حقیقت ہے۔‘‘ یانگ کا مطلب یہ تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو سرد جنگ کی روایت کے مطابق چین کی قیادت کے دعوے کے سامنے جھکنا چاہیے۔