لائپزگ، جرمنی: عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 20 برس کے بعد سے انسانوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بتدریج سست پڑجاتی ہے اور انہیں زیادہ وقت لگتا ہے لیکن اس کا دماغی صلاحیت اور معلومات پروسیسنگ کرنے میں کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اب ایک نئی تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغی پروسیسنگ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ ورنہ ہم اب تک اسی بات کے قائل تھے۔
جرمنی کی مشہور ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر میشکا وان کروز اور ان کی ٹیم نے 10 سے 80 برس تک کے افراد کے 12 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ اگرچہ اس تجربے کا ڈیزائن مختلف تھا لیکن یہ ایک اور تحقیق میں کام آگیا کیونکہ اس کا مقسد نسل پرستانہ فکر پر تحقیق کرنا تھا۔
مثلاً شرکا کے سامنے سفید فام اور سیاہ فام افراد کی تصاویر دکھائی گئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ اسے پر خوشی کا غصے میں سے کوئی ایک بٹن دبا کر اپنا ردِ عمل ظاہر کریں۔ اس عمل میں فوٹو دیکھ کر ردِ عمل نوٹ کرنے کا دورانیہ بھی معلوم کیا گیا تھا۔
میشکا کہتے ہیں کہ بہت عرصے سے خود سائنسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ 20 برس کے بعد دماغی ردِ عمل اور پروسیسنگ کی رفتار بتدریج سست ہوتی رہتی ہے، اس کا ذمے دار دماغی فعلیاتی صلاحیت میں کمی کو قرار دیا جاتا ہے، اس کی کئی طرح سے تاویل کی گئی۔
اول یہ بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغ بھی بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ 20 برس کے بعد انسان اپنے فیصلےمیں یقینیت اور قدرے زیادہ معلومات چاہتا ہے اور فوری ردِ عمل نہیں دیتا۔ تیسری تشریح یہ کی جاتی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ بصری معلومات کو دماغ تک پہنچنے میں تاخیر بڑھتی جاتی ہے۔
اب نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغی پھرتی 20 سال کی عمر میں ایک درجے تک پہنچتی ہے اور 60 برس تک اپنی تیزی برقرار رہتی ہے۔ یعنی بڑھاپے میں بھی اس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
اگرکوئی تاخیر ہو تو اس کی وجہ عمر رسیدگی میں چوکنا ہونا اور معلومات کا تجزیہ شامل ہوتا ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جاسکے۔ اس طرح یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ 40 سے 50 سال کے افراد کے لوگوں کی دماغی صلاحیت 20 سالہ نوجوان سے کم ہوتی ہے۔
اس تحقیق کا وسیع اطلاق ہوسکتا ہے اور یوں اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ 60 برس تک ہماری دماغی صلاحیت میں کوئی خاص کمی نہیں ہوتی ہے۔